Skip to main content

What is section 144? When and why is it applied? What is the punishment for its violation?

دفعہ 144 کیا ہے یہ کب اور کیوں لگائی جاتی ہے؟؟ ہم اکثر سنتے رہتے ہیں دفعہ 44 نافذ ہوگئی ہے ڈبل سواری پر پابندی لگا دی گئی یا جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر دی گئ ہے۔ کرونا کے دنوں میں مارکیٹ سکول کھولنے پر پابندی بھی اسی دفعہ 144 کے ذریعے لگائی گئی۔ یہ سب کچھ درحقیقت ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 تحت گورنمنٹ کرتی ہے. دفعہ 144 ایک خاص قسم کا قانون ہے جو ایمرجنسی ماحول میں خاص علاقے شہر یا جگہ پر نافذ کیا جاتا ہے۔ اس قانون کو انگریز دور میں آزادی کی تحریک روکنے کے لیے انگریز سرکار نے بنایا تھا۔ اس قانون کے تحت آزادی کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کو کچلا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستان انڈیا میں حکومتیں دفعہ 144 کا نفاذ احتجاج کو روکنے کے لیے کرتی ہیں. یاد رہے پاکستانی آئین کے مطابق ہر شخص کو، گروہ کو حق حاصل ہے کے وہ پر امن احتجاج کر سکتے ہیں
دفعہ 144 کا نفاذ کون کرتا ہے؟ دفعہ 144 کو صوبائی حکومت، ضلعی ناظم اپنے ضلع کی حد تک اور اگر ضلعی ناظم نہیں ہے تو ڈی سی ضلع، ضلع کے خاص علاقے میں نافذ کرتا ہے. دفعہ 144 کسی علاقے میں دو مہینے سے زائد نہیں لگائی جاسکتی لیکن خاص صورتحال میں 2 مہینے سے زائد عرصے تک دفعہ 144 نافذ العمل رہتی ہے۔ دفعہ 144 کیوں لگائی جاتی ہے؟ جب کسی شہر یا علاقے میں نقص عام فساد کا خطرہ ہو، لوگوں کی جان و مال کو خطرہ ہو تو اس صورتحال میں صوبائی حکومت یا ڈی سی دفعہ 144 نافذ کر دیتا ہے. کس قسم کی پاپندی ہوتی ہے دفعہ 144 کے دوران؟ دفعہ 144 میں کوئی خاص قسم کی پابندی بیان نہیں کی گئی اس کے مطابق حالات کے مطابق مختلف قسم کی پاپندی لگائی جاسکتی ہیں مثلا اگر نقص عام دہشت گردی کا خطرہ ہو تو جلسے جلوسوں پر پابندی ہوسکتی ہے، لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہوسکتی ہے ڈبل سواری پر پابندی ہوسکتی ہے، دوکانیں کھولنے پر پابندی ہوسکتی ہے. فوگ کے دوران فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں کوڑے کو آگ لگانے اینٹوں کے بھٹے چلانے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ بسنت کے سیزن میں پتنگ ڈور کے استعمال پر پابندی کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جاتی ہے۔ غرض کے ہر وہ پاپندی جو کے اس ایمرجنسی کے دوران لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے ضروری ہے اس دفعہ کے تحت لگا دی جاتی ہے۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے کی سزا؟ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی صورت میں 1 مہینے سے لیکر 6 مہینے تک قید کی سزا اور جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ قانون کی پاسداری کرنی چاہئے کیوں کہ ایک مہذب معاشرے کی تشکیل قانون پر عملدرآمد کے ذریعے ہی ممکن ہے. "محمد لقمان مانی پوریا "

Comments

Popular posts from this blog

As the elections approached, politicians set up their own thieves' stalls and started selling their number two thieves by the names of Usama Hamza, Asad Zaman Cheema and Khalid Bashir.

گوجرہ : الیکشن قریب آتے ہی سیاستدانوں نے اپنے اپنے چورن کے سٹال سجا لیے اور اسامہ حمزہ ، اسد زمان چیمہ اور خالد بشیر کا نام لےکر اپنا اپنا دو نمبر چورن فروخت کرنا شروع کردیا آپ لوگوں کے علم میں اضافہ کرتا چلو کہ عموما لاری اڈوں میں نیم حکیم اپنی دوائی بیچنے کےلئے مجمع لگاتے ہیں کہ ہمارے پاس ٹائمنگ کو بہتر کرنے مردوں کی بےشمار جنسی بیماریوں کا علاج ہے تو ہمارے لوگ جنسی غلام ہیں مجمعے میں کئی سو موجود ہوتے ہیں لیکن بعد میں دوائی صرف ایک دو ہی خریدتے ہیں باقی سب مزہ لینے والے ہی ہوتےہیں اسی طرح ابھی آپ نے جو مجمع لگا رکھا ہے اس میں لوگ تو آپکو نظر آرہے ہیں لیکن ادھرلوگ جنسی غلام تھے ادھر لوگ ذہنی غلام ہیں باقی اس مجمعے کا پتا الیکشن پر لگ جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہیں اگر اسامہ صاحب کا نام لےکر اپکا چورن بک رہا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں آپ کے رزق کو ٹانگ مارنے والے ایک چورن ہمیشہ سے گوجرہ کی معصوم عوام کو بیجا گیا ہے کہ گوجرہ میں حمزہ صاحب کے دور میں کوئی ترقی یا کام نہیں ہوا۔ اور حمزہ صاحب نے سینیٹر ہوتے ہوئے حلقے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ کیا وڑائچ برادران سے پوچھا جائے کہ

How did I get interested in journalism and who were my idols?

آج کی تحریر کا عنوان : صحافت میں میرا شوق یہ بات ہے 2015 کی جب میری فرینڈ لسٹ میں "سلطان سدھو" نامی شخص کی آئی ڈی آئی اس آئی ڈی پر عموماً ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی خبریں شائع ہوتی تھی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی خبر مجھے اس آئی ڈی سے پڑھنے کا موقع ملتا اور معلومات حاصل ہوتی اس آئی ڈی کو میں دن میں کئی کئی بار اوپن کرکے خبریں پڑھتا رہتا تھا ان دنوں سوشل میڈیا پر کوئی عروج بھی نہ تھا اور نہ ہی کسی کو سوشل میڈیا کے بارے میں اتنی معلومات تھی لوگ صرف اپنی تصاویر شئیر کرنے کےلئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ میری دلچسپی خبروں میں بڑھنا شروع ہوگئی پھر کچھ مہینوں بعد سلطان سدھو بھائی کا ایک فیس بک پیج "ٹوبہ ٹیک سنگھ بائی سلطان سدھو" سامنے آیا جو فیس بک پر 2 لاکھ فالورز کے ساتھ آج بھی موجود ہے میں اس پیج سے خبریں پڑھتا پڑھتا خبروں کو کاپی کرکے اپنی آئی ڈی پر شئیر کرنے لگ پڑا اس پیج پر روزانہ کی بنیاد پر گوجرہ کی تین سے چار خبریں شئیر ہوتی تو میں فوری وہاں سے کاپی کرکے پیسٹ کر دیتا کسی کو کوئی معلومات چاہیے ہوتی تو وہ یہی بولتا کہ لقمان کو پتا

گوجرہ میں سب سے بڑا خطرہ پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی سے ہوگا

شہر گوجرہ کی سیاست کا احوال جنرل الیکشن کی آمد آمد ہے تمام سیاسی جماعتوں نے کمر کس کے بھر پور کمپین شروع کردی ہے پنجاب میں اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ کے اتحادی پی ڈی ایم نامی مکس اچار کے مابین ہوگا باقی حلقوں کی طرح شہر گوجرہ میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کے لیے سیاستدانوں میں زبردست قسم کی رسہ کشی جاری ہے پی پی 118 اور این اے 105 کی صورت حال بالکل واضح ہے اور یہاں سے این اے 105 سے اسامہ حمزہ صاحب مضبوط امیدوار ہیں اور پی پی 118 سے اسد زمان چیمہ اسامہ حمزہ کے مضبوط ونگ ہیں اس طرح پی پی 118 سے اسامہ حمزہ اور اسد زمان چیمہ باآسانی جیت جائیں گے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کا گراف آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور پاکستان تحریک انصاف دنیا کی چھٹی بڑی پارٹی ابھر کے سامنے آئی ہے ۔ اب بات کرتے ہیں پی پی 119 سے جہاں سے سابقہ ٹکٹ ہولڈر خالد بشیر ،احسن احسان گجر اور میاں طارق صاحب ٹکٹ کی دوڑ میں شامل ہیں اگر پی پی 119 میں سے ان تینوں میں سے ایسا مضبوط امیدوار سامنے لایا جاتا جس کا ووٹ بینک تگڑا ہے تو پی پی 119 کیساتھ ساتھ این اے 105 کی سیٹ